اہلِ ثروت کے دِلوں میں، ہے جو شفقت ٹاپ کا
تذکِرہ کرتا ہوں اُس کا، توڑ بَرَت چاپ کا
سیٹھ صاحب، وقتِ رُخصت، اِس طرح فرما گئے
“میرے ڈوگی پہ رہے بس دستِ شفقت آپ کا
میکڈونلڈ اور کے ایف سی کا ہی کھاتا ہے یہ
اِسٹَمَک عادی نہیں، اِس کا، اناپ شناپ کا
سوئٹ ڈِش کھاتا نہیں یہ ہر کسی دُکان سے
ایڈریس لے لینا مُجھ سے خاص ہی اِک شاپ کا
بِن لوری، سو نہیں سکتا ہے ہر گز، خُوش مذاق
اِس کی خاطر، ہو کوئی سی ڈی، بھی انگلش پاپ کا
دیکھئے، سردی سے بھی محفُوظ رکھئے گا اِسے
سُوٹ بھی سِلوا ہی لیجئے گا، ایک اِس کے ناپ کا
عام سا درزی کہاں سی پائے گا اِس کا لِباس
ٹیلر، بُلوائیے گا، یوروپ سے کوئی ٹاپ کا
اِختلاجِ قلب سے بھی اِس کو رکھنے کو پَرے
آڈیو سُنوائیے گا، اس کو مست الاپ کا
دیکھئے گا، میرے پیارے کو نہ ہو کوئی کمی
فرض میں نے ہے نِبھایا، اِس کی خاطر باپ کا“
آبدیدہ ہوگیا میں سُن کے اُن کی داستاں
انتہا کو جبکہ پہنچا، بیان اُنکے جاپ کا
بولا، “حد سے بھی زیادہ، عزّت دوں گا میں اِسے
نظرِ سرور میں تو ہے یہ، نقشِ ثانی آپ کا“
(قارئین، جانوروں سے محبّت کے ہم بھی قائل ہیں، لیکن جب ہمارے اطراف میں انسان فاقوں کے ہاتھوں مَر رہے ہوں، کیا اُمراء کے اِن مہنگے جانوروں کے پالنے اور اُن کے ناز نخرے اُٹھانے کے چونچلوں کا کوئی جواز بنتا ہے؟)