میرے سرکش ترانے سَن کے دَنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دِل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامہء جنگ و جدل میں کیف مِلتا ہے
میری فطرت کو خوں ریزی کے افسانے سے رغبت ہے
میری دَنیا میں کَچھ رغبت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
میرا محبوب نغمہ شورِ آہنگِ بغاوت ہے
مگر اے کاش دیکھیں وہ میری پَر سوز راتوں کو
میں جب تاروں پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں
تصور بن کے بھَولی وارداتیں یاد آتی ہیں
تو سوزِ درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں
کوئی خوابوں میں خوابیدہ اَمنگوں کو جگاتی ہے
تو اپنی زندگی کو موت کے پہلو میں پاتا ہوں
میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے اَلفت ہے
میرا دِل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
میرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
میری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
میرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھَوک کے مارے کِسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو بے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کوامارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دِل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا