میں ایک ایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں
Poet: Shakira Nandini By: Shakira Nandini, Oportoمیں ایک ایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں
جو وقت بے وقت
اپنی رانوں کو کھجلا سکتی ہو
جس کی ناک میں بال ہوں
جسے دھوپ میں پسینہ آئے
جس کے ہونٹ پیاس سے سوکھ کر
پپڑیوں کی شکل لے لیتے ہوں
جس کی بغل میں وہ خاکی لکیریں موجود ہوں
بالکل زندہ اور متحرک
جن پر کبھی کبھار کالک جم جاتی ہے
ایک ایسی لڑکی
جس کی کمر پر میری توقعات کا بھاری بوجھ نہ ہو
تھوڑی کے نیچے کسی تل کی گنجائش نہ ہو
ماتھا کشادہ نہ ہو
اور بال ناگن کی طرح ٹخنوں سے نہ ٹکراتے ہوں
مگر لگتا ہے
معاشرے میں ایسی لڑکیاں پیدا ہی نہیں ہوتیں
وہ چاند کے تھال میں جنم لیتی ہیں
دودھ کی ڈلیا میں مر جاتی ہیں
ان کی آنکھوں میں ہرنیوں کا سا قدرتی کاجل ہوتا ہے
کمر کسی جھولتی ہوئی نازک ڈالی جیسی
بال جنگل کی اداسی کی طرح بے انت
اور پتھروں پہ ڈالی گئی خراش کی طرح ان کی مانگ میں رہتا ہے سیندور
بلب کی طرح اگائی ہوئی ایک بندی
میں ایک ایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں
جس کا بدن محض خوشبو نہ ہو
جس کے پاس اپنے ہونے کی بھرپور بدبوئیں ہوں
اور وہ جعلی نہ ہو
میری طرح
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے







