میں تیری یاد میں گم ہوں سو میں ہوں تو ہو کر
کہ جیسے پھول میں رہتا ہوں اس کی بو ہو کر
پھر آ جا اور یہ تصویر لے کے جا اپنی
تو خود کو چھوڑ گیا میرے رو بہ رو ہو کر
یہ دل تو روز نشیمن سجا کے رکھتا ہے
مری طرف سے گزر تو بھی تو کبھو ہو کر
گلاب سن تو گل اندام آ رہا ہوگا
دکھا دے سامنے اس کے بھی سرخ رو ہو کر
تو چاہتا ہے تو سینہ یوں چیر اخترؔ کا
کہ چیرنے کو تجھے پھر ملے رفو ہو کر