میں جب وجود کے حیرت کدے سے مل رہا تھا
مجھے لگا میں کسی معجزے سے مل رہا تھا
میں جاگتا تھا کہ جب لوگ سو چکے تھے تمام
چراغ مجھ سے مرے تجربے سے مل رہا تھا
ہوس سے ہوتا ہوا آ گیا میں عشق کی سمت
یہ سلسلہ بھی اسی راستے سے مل رہا تھا
خدا سے پہلی ملاقات ہو رہی تھی مری
میں اپنے آپ کو جب سامنے سے مل رہا تھا
عجیب لے تھی جو تاثیر دے رہی تھی مجھے
عجیب لمس تھا ہر زاویے سے مل رہا تھا
میں اس کے سینۂ شفاف کی ہری لو سے
دہک رہا تھا سو پورے مزے سے مل رہا تھا
ثواب و طاعت و تقویٰ فضیلت و القاب
پڑے ہوئے تھے کہیں میں نشے سے مل رہا تھا
ترے جمال کا بجھنا تو لازمی تھا کہ تو
بغیر عشق کئے آئنے سے مل رہا تھا
زمین بھی مرے آغوش سرخ میں تھی علیؔ
فلک بھی مجھ سے ہرے ذائقے سے مل رہا تھا