میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
Poet: Saleem Kausar By: vaneeza, khi
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے 
 سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے 
 
 میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں 
 میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے 
 
 عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی 
 میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے 
 
 مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر 
 تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے 
 
 تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں 
 تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے 
 
 وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں 
 مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے 
 
 کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے 
 جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے 
 
 جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی 
 تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں ہیں جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں
پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں دل میں خوف کی
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں
یہ زمیں یوں ہی سکڑتی جائے گی اور ایک دن
پھیل جائیں گے جو طوفاں ساحلوں میں قید ہیں
اس جزیرے پر ازل سے خاک اڑتی ہے ہوا
منزلوں کے بھید پھر بھی راستوں میں قید ہیں
کون یہ پاتال سے ابھرا کنارے پر سلیمؔ
سرپھری موجیں ابھی تک دائروں میں قید ہیں
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کار ثواب نہیں ہوتا
مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا
یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
مری وحشت پہ صحرا تنگ ہوتا جا رہا ہے
کہا تو تھا یہ آنگن لا محالہ کم رہے گا
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
بہت سے دکھ تو ایسے بھی دیے تم نے کہ جن کا
مداوا ہو نہیں سکتا ازالہ کم رہے گا
وہ چاندی کا ہو سونے کا ہو یا پھر ہو لہو کا
سلیمؔ اہل ہوس کو ہر نوالہ کم رہے گا
Phir Aankhen Palkon Mein Chup Kar Rone Lagti Hai
Jane Tab Kyon Suraj Ke Khvahish Karte Hain Log
Jab Barish Mein Sab Divaren Girane Lagti Hai
Tasviron Ka Rog Bhi Aakhir Kaisa Hota Hai
Tanhai Mein Baat Karo To Bolane Lagti Hai
Sahil Se Takarane Vali Vahashi Maujen Bhi
Zinda Rahane Ke Khvahish Mein Marane Lagti Hai
Tum Kya Jano Lafzon Ke Aazar Ke Shiddat Ko
Yaden Tak Sochon Ke Aag Mein Jalne Lagti Hai







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 