میں فسانہء تکلم ہوں مری کتاب تو ہے
مجھے فخر ذات کیونکہ مرا ہم رکاب توہے
مری روح مہکی مہکی مرا دل بھی ہے معطر
جو وفا کھلا رہی ہے وہ حسین خواب تو ہے
تو کوئ ورق بھی کھولے مری زندگی کاہمدم
مرا پیش لفظ ہے تو مرا ا نتساب تو ہے
یہ جنوں کہیں نہ ڈوبے تری لے کے زندگانی
ذرا ہر قدم سنبھل کے مرا انتخا ب تو ہے
جو انا پرست ہے تو الزام ہم بھی کیوں لیں
کیا چھپے گا اور کتنا جب بے نقاب تو ہے
بڑا بے صبر یہ دل بھی ترا ضد میں آگیاہے
مرا امتحان تو ہے مرا اضطراب تو ہے
یہ غزل کی خوش نصیبی تری چاہتیں میسر
تجھے پاکے کھل گئ ہوں مرا یہ شباب توہے