میں نے اس کو برف دنوں میں دیکھا تھا
اس کا چہرہ سورج جیسا لگتا تھا
یوں بھی نظریں آپس میں مل لیتی تھیں
وہ بھی پہروں چاند کو تکتا رہتا تھا
وہ گلیاں وہ رستے کتنے اچھے تھے
جب وہ ننگے پاؤں گھوما کرتا تھا
چاروں جانب اس کی خوشبو بکھری تھی
ہجر کا اک موسم بھی اس کے جیسا تھا
دور کہیں آواز کے گھنگھرو بجتے تھے
اور میں کان لگائے سنتا رہتا تھا
سبز رتوں میں اکثر مجھ کو یاد آیا
اس نے خط میں سوکھا پتا بھیجا تھا