میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
Poet: احمد ندیم قاسمی By: Tooba, Karachiمیں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
چراغ اگر نہ جلا تو دل کو جلائیں گے ہم
ہماری کوہ کنی کے ہیں مختلف معیار
پہاڑ کاٹ کے رستے نئے بنائیں گے ہم
جنونِ عشق پہ تنقید اپنا کام نہیں
گلوں کو نوچ کے کیوں تتلیاں اڑائیں گے ہم
بہت نڈھال ہیں سستا تو لیں گے پل دوپل
الجھ گیا کہیں دامن تو کیوں چھڑائیں گے ہم
اگر ہے موت میں کچھ لطف تو بس اتنا ہے
کہ اسکے بعد خدا کا سراغ پائیں گےہم
ہمیں تو قبر بھی تنہا نہ کرسکے گی ندیم
کہ ہرطرف سے زمیں کو قریب پائیں گےہم
کہ مسکرایا خدا بھی ستارہ وا کر کے
گدا گری بھی اک اسلوب فن ہے جب میں نے
اسی کو مانگ لیا اس سے التجا کر کے
شب فراق کے ہر جبر کو شکست ہوئی
کہ میں نے صبح تو کر لی خدا خدا کر کے
یہ سوچ کر کہ کبھی تو جواب آئے گا
میں اس کے در پہ کھڑا رہ گیا صدا کر کے
یہ چارہ گر ہیں کہ اک اجتماع بد ذوقاں
وہ مجھ کو دیکھیں تری ذات سے جدا کر کے
خدا بھی ان کو نہ بخشے تو لطف آ جائے
جو اپنے آپ سے شرمندہ ہوں خطا کر کے
خود اپنی ذات پہ تو اعتماد پختہ ہوا
ندیمؔ یوں تو مجھے کیا ملا وفا کر کے
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
سورج کو غروب سے بچاؤں
بس میرا چلے جو گردشوں پر
دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں
امکان پہ اس قدر یقیں ہے
صحراؤں میں بیج ڈال آؤں
میں شب کے مسافروں کی خاطر
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں
اشعار ہیں میرے استعارے
آؤ تمہیں آئنہ دکھاؤں
یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں
ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں
آواز جو دوں کسی کے در پر
اندر سے بھی خود نکل کے آؤں
اے چارہ گران عصر حاضر
فولاد کا دل کہاں سے لاؤں
ہر رات دعا کروں سحر کی
ہر صبح نیا فریب کھاؤں
ہر جبر پہ صبر کر رہا ہوں
اس طرح کہیں اجڑ نہ جاؤں
رونا بھی تو طرز گفتگو ہے
آنکھیں جو رکیں تو لب ہلاؤں
خود کو تو ندیمؔ آزمایا
اب مر کے خدا کو آزماؤں
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں کہ چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہوئی گل دانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا
ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندیمؔ
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا






