میں کسے کہوں کیا کیا یہاں ستم ہوتے ہیں
یوں ہی آزادی سے ہم یہاں چشمِ زخم ہوتے ہیں
تو ہمیں بتا اپنے غم جو دیے ستم گر نے یہاں
ہم بھی تو اہلِ غم ہوتے ہیں
جو کہہ دوں انجمن میں کہ چلو حق کے لیے نکلیں
تو یوں ہی چپ یہاں اہلِ بزم ہوتے ہیں
اِس گنجینہ کی چابی تو تختِ نشیں کے پاس ہے
یاں یہ کہہ دو کہ اِس پر بھی ہم ہوتے ہیں
یہ کون آتا ہے راتوں کو گنجینہَ ء چمن میں
ہم جو بولیں تو ہم ہی فردِ جرم ہوتے ہیں
ہمارے بیانِ درد پر بھی کوئی داد دے دو
ہم بھی تو اہلِ سُخن ہوتے ہیں
عیش و آرام میں رہے تم اور تمہارے لال
رُسواہ تو یہاں گلِ چمن ہوتے ہیں
اُسے کیا رنج افلاس زدوں کی حالت کا
جو اپنے ہی آرائش و جمال میں مگن ہوتے ہیں
تُو باغی ہے ارسلان ، اگر جو حق پہ تیری زبان کُھلی تو
بے زبان تو یہاں حُبِ وطن ہوتے ہیں