میں ہوں مشتاقِ جفا‘ مجھ پہ خفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش‘ اس سے سوا اور سہی
تم ہو بت‘ پھر تمھیں پندارِ خدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ‘ خدا اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ!
خلد بھی باغ ہے‘ خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب!
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ سے غالبؔ! یہ علائیؔ نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی