نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے
مگر اس حسن میں دل کی کمی معلوم ہوتی ہے
حجابوں میں نسیم زندگی معلوم ہوتی ہے
کسی دامن کی ہلکی تھرتھری معلوم ہوتی ہے
مری راتوں کی خنکی ہے ترے گیسوئے پر خم میں
یہ بڑھتی چھاؤں بھی کتنی گھنی معلوم ہوتی ہے
وہ اچھا تھا جو بیڑا موج کے رحم و کرم پر تھا
خضر آئے تو کشتی ڈوبتی معلوم ہوتی ہے
یہ دل کی تشنگی ہے یا نظر کی پیاس ہے ساقی
ہر اک بوتل جو خالی ہے بھری معلوم ہوتی ہے
دم آخر مداوائے دل بیمار کیا معنی
مجھے چھوڑو کہ مجھ کو نیند سی معلوم ہوتی ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
نسیم زندگی کے سوز سے مرجھائی جاتی ہے
یہ ہستی پھول کی اک پنکھڑی معلوم ہوتی ہے
جدھر دیکھا نشورؔ اک عالم دیگر نظر آیا
مصیبت میں یہ دنیا اجنبی معلوم ہوتی ہے