نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پلکیں ہیں اور پیڑ کئی محفوظ ہے ٹھنڈک جن کی ابھی
کہیں دور نہ جا مت خاک اڑا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا
نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پھولوں جیسے لوگ بھی ہیں انہی ایسے ویسے لوگوں میں
تو غیروں کے مت ناز اٹھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
بے چین ہے کیوں اے ناصرؔ تو بے حال ہے کس کی خاطر تو
پلکیں تو اٹھا چہرہ تو دکھا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں