ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں تری بزم میں آتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پھر نئے غم کی ضرورت ہے مری غزلوں کو
روز کی بات بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
زندگی تجھ سے بھی اب روٹھنے کو دل چاہے
بارہا تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
لب کشائی تو کرو تم بھی مرے حق میں کبھی
میں تمہارا ہوں بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
قرض کم ظرف سے لینے میں ہے نقصان بہت
اس کا احسان چکاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
علم ہوتا ہے حقیقت میں جہالت کا جواب
میں تو اسباق پڑھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
دل کا وہ میل مگر صاف نہیں ہوتا ادیبؔ
ہاتھ دشمن سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں