ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
Poet: شاہد By: شاہد, Daduناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں تری بزم میں آتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پھر نئے غم کی ضرورت ہے مری غزلوں کو
روز کی بات بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
زندگی تجھ سے بھی اب روٹھنے کو دل چاہے
بارہا تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
لب کشائی تو کرو تم بھی مرے حق میں کبھی
میں تمہارا ہوں بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
قرض کم ظرف سے لینے میں ہے نقصان بہت
اس کا احسان چکاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
علم ہوتا ہے حقیقت میں جہالت کا جواب
میں تو اسباق پڑھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
دل کا وہ میل مگر صاف نہیں ہوتا ادیبؔ
ہاتھ دشمن سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
More Adeeb Damohi Poetry
ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں تری بزم میں آتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پھر نئے غم کی ضرورت ہے مری غزلوں کو
روز کی بات بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
زندگی تجھ سے بھی اب روٹھنے کو دل چاہے
بارہا تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
لب کشائی تو کرو تم بھی مرے حق میں کبھی
میں تمہارا ہوں بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
قرض کم ظرف سے لینے میں ہے نقصان بہت
اس کا احسان چکاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
علم ہوتا ہے حقیقت میں جہالت کا جواب
میں تو اسباق پڑھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
دل کا وہ میل مگر صاف نہیں ہوتا ادیبؔ
ہاتھ دشمن سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں تری بزم میں آتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پھر نئے غم کی ضرورت ہے مری غزلوں کو
روز کی بات بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
زندگی تجھ سے بھی اب روٹھنے کو دل چاہے
بارہا تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
لب کشائی تو کرو تم بھی مرے حق میں کبھی
میں تمہارا ہوں بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
قرض کم ظرف سے لینے میں ہے نقصان بہت
اس کا احسان چکاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
علم ہوتا ہے حقیقت میں جہالت کا جواب
میں تو اسباق پڑھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
دل کا وہ میل مگر صاف نہیں ہوتا ادیبؔ
ہاتھ دشمن سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
شاہد






