نالہ جُز حسنِ طلب‘ اے ستم ایجاد! نہیں
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
نالہ جُز حسنِ طلب‘ اے ستم ایجاد! نہیں
ہے تقاضائے جفا‘ شکوۂ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشر تگہِ خسرو‘ کیا خوب!
ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں
کم نہیں وہ بھی خرابی میں‘ پہ وسعت معلوم
دشت میں‘ ہے مجھے وہ عیش کہ‘ گھر یاد نہیں
اہلِ بینش کو‘ ہے طوفانِ حوادث‘ مکتب
لطمۂ موج‘ کم از سیلیِ استاد‘ نہیں
وائے محرومیِ تسلیم و بدا حالِ وفا!
جانتا ہے کہ‘ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں
رنگِ تمکینِ گل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟
گر چراغانِ سرِ رہ گزرِ باد نہیں
سَبَدِ گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں
مژدہ‘ اے مرغ! کہ گلزار میں صیاد نہیں
نفی سے کرتی ہے اثبات‘ تراوش‘ گویا
دی ہے جایے دہن اس کو دمِ ایجاد ’’ نہیں ‘‘
کم نہیں‘ جلوہ گری میں‘ تیرے کوچے سے‘ بہشت
یہی نقشہ ہے‘ ولے اس قدر آباد نہیں
کرتے کس منہ سے ہو‘ غربت کی شکایت‘ غالبؔ!
تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟
More Mirza Ghalib Poetry
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
فہد






