کون کہتا ہے کہ اب لوٹ کے گھر جاؤں گا
میزبانی تری ٹھُکراؤں گا ، مر جاؤں گا
میں ترے گھر میں جو رہتا ہوں مسافر کی طرح
تیرا کھانا نہیں کھاؤں تو کِدھر جاؤں گا
دال کی کون سی تاریخ ہے میں بھول گیا
گوشت اب بھی نہ ملے گا تو میں مر جاؤں گا
بے بسی، بے کسی و مفلسی و کنجوسی
یوں گزارا نہ کروں گا تو گزر جاؤں گا
اب کرایہ نہ طلب کر مرے اچھے مالک
رقم ساری میں وصیّت میں ہی کر جاؤں گا
بارے آرام سے کچھ دِن ہی گزاروں گا یہاں
سال ، دو سال میں اُس پار اُتر جاؤں گا
تیرا مہمان ہوں پھِر بھی تجھے پیسے دے دوں
ایسی حرکت نہ تو کی ہے ، نہ ہی کر جاؤں گا
(احمد ندیم قاسمی سے معذرت کے ساتھ)