نبی کے آستاں پر کی جب آ کر التجا میں نے
تمنا تھی مجھے جس کی ، وہ گوہر پا لیا میں نے
جو دھبہ تھا تعفن کا لگا ، وہ دھو دیا میں نے
نبی کے ذکر سے کر دی معطر یہ فضا میں نے
بنا کر روز و شب ورد زباں صل علٰی میں نے
چنا ہے کیسا اپنی مغفرت کا راستا میں نے
محمد ! یا محمد ! جب مصیبت میں کہا میں نے
رہائی رنج سے، چھٹکارا غم سے پا لیا میں نے
ہوئے نازاں فرشتے احترام آدمی کر کے
تمھارے سلسلے سے جب ملایا سلسلہ میں نے
بپا جشن ولادت ہے بہر سو شاہ عالم کا
خوشی سے جھومتی دیکھی ہے، جو باد صبا میں نے
کلید قفل رحمت اک یہی اسم محمد ہے
جو سر معرفت تھا، آشکارا کر دیا میں نے
انھی پر ہو گئیں بندہ نوازی کی حدیں آخر
کشادہ یوں کوئی دیکھا نہیں دست عطا میں نے
سمجھتا ہوں بھلا کیا میں ترے اس زعم تقوٰی کو
بہت دیکھے ارے واعظ ! تجھ ایسے پارسا میں نے
کروں کیوں آپ کے ہوتے میں اوروں سے وفا داری
بھکاری ہوں، نمک کھایا ہے بیشک آپکا میں نے
ادھر اشک ندامت ہیں، ادھر ہے جوش میں رحمت
گنہگاری کی محشر میں عجب پائی سزا میں نے
حیات اس رحمت عالم کی رومی ! ہے نگاہوں میں
جبھی تو گالیاں کھا کر بھی دی سبکو دعا میں نے