علی اصغر کے کھلونے پڑے ہیں ریت پر
نبی کے پھول وہ بکھرے پڑے ہیں ریت پر
نگاہ فلک نے منظر یہ کب دیکھا ہو گا
جابجا عشق کے سجدے پڑے ہیں ریت پر
عرش کے تھر تھرا اٹھنے کی صدا آئی ہے
یہ کس کے خون کے قطرے پڑے ہیں ریت پر
خلد پہ حوریان ناز رشک کرتی ہیں
علی اکبر کے وہ سہرے پڑے ہیں ریت پر
گونجتی ہے فضا میں دور صدائے سکینہ
نبی کی آل کے لاشے پڑے ہیں ریت پر
موت سے زندگی کی روح پھوٹتی دیکھو
زندگانی کے سفینے پڑے ہیں ریت پر
نبی کے نام پہ قائم ہیں جسکی بنیادیں
اسی فردوس کے زینے پڑے ہیں ریت پر
درد سے منہ کو آتا ہے کلیجہ یارب
تیری جنت کے شہزادے پڑے ہیں ریت پر
کہیں عباس علمدار تو کہیں قاسم
بزم ہستی کے اجالے پڑے ہیں ریت پر
خیموں سے زینب طاہرہ نے پکارا شاید
میرے بھیا کے دلارے پڑے ہیں ریت پر
تجھے کیوں موت نہ آئی اے بہتے آب فرات
وہ اہل بیت پیاسے پڑے ہیں ریت پر
اے ارض کرب وبلا پیاس بجھی کیا تیری؟
جنتیں بانٹنے والے پڑے ہیں ریت پر
لہو کی بوند بوند میں سے روشنی پھوٹے
فلک کے چاند ستارے پڑے ہیں ریت پر
خون شبیر سے ملتا ہے زندگی کا درس
فرات “کن“ کے کنارے پڑے ہیں ریت پر