اُصولِ احمد زمانے بھر میں چمک رہا ہے ، دمک رہا ہے
حسین تیرے لہو کا صدقہ ، لہک رہا ہے ، مہک رہا ہے
وہ جس کا کوثر پہ ہے اجارا ، کھڑا ہے کربل میں بھوکا پیاسا
نبی کی آنکھوں کا ہو کے تارا ، یزیدیوں کو کھٹک رہا ہے
نبی کا وہ لاڈلا نواسا ، سواری جس کی تھی دوشِ آقا
مگر یہ شمرِ لعین کیوں کر ، اُسی کی جانب لپک رہا ہے
کھڑے ہیں رضواں جناں کے در پر، کہ آنے والے ہیں آلِ حیدر
ہے سبطِ احمد کی آج آمد ، کہ باغِ جنت لہک رہا ہے
ہیں رن میں لپکے جوان اکبر ، یزیدیوں کا ہے حال ابتر
حُسینِ اعظم کے اس پسر سے ، نبی کا جلوہ جھلک رہا ہے
ہے کلکِ اختر کی یہ عنایت ، ہے فیضِ نوری رضا کی برکت
مُشاہدِؔ رضوی تیرے خامہ سے ذکر شُہدا ٹپک رہا ہے