نرگس پہ تو الزام لگا بے بصری کا
ارباب گلستاں پہ نہیں کم نظری کا
توفیق رفاقت نہیں ان کو سر منزل
رستے میں جنہیں پاس رہا ہم سفری کا
اب خانقہ و مدرسہ و مے کدہ ہیں ایک
اک سلسلہ ہے قافلۂ بے خبری کا
ہر نقش ہے آئینۂ نیرنگ تماشا
دنیا ہے کہ حاصل مری حیراں نظری کا
اب فرش سے تا عرش زبوں حال ہے فطرت
اک معرکہ در پیش ہے عزم بشری کا
کب ملتی ہے یہ دولت بیدار کسی کو
اور میں ہوں کہ رونا ہے اسی دیدہ وری کا
بے واسطۂ عشق بھی رنگ رخ پرویز
عنوان ہے فرہاد کی خونیں جگری کا
آخر ترے در پہ مجھے لے آئی محبت
دیکھا نہ گیا حال مری در بدری کا
دل میں ہو فقط تم ہی تم آنکھوں پہ نہ جاؤ
آنکھوں کو تو ہے روگ پریشاں نظری کا
بے پیرویٔ میرؔ حفیظؔ اپنی روش ہے
ہم پر کوئی الزام نہیں کم ہنری کا