نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے
جلا کر چل دیے جو آشیاں کو
انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے
جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے
چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے
چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے
یہاں جمہوریت کا نام لے کر
تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے
نوالہ چھین کر محنت کشوں سے
نوابوں کو کھلایا جا رہا ہے
غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں
دو ہاتھوں سے لُٹایا جا رہا ہے
عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے
کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے
خدا کے نام پہ کر کے تجارت
سکونِ قلب پایا جا رہا ہے
زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے
قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے
خلیفہ نرم دل ہیں رو پڑیں گے
غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے
گزرگاہ ہے جہاں، منزل نہیں ہے
رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے