نظارۂ جمال نے سونے نہیں دیا
شب بھر ترے خیال نے سونے نہیں دیا
پہلے نوید وصل مری نیند لے اڑی
پھر نشۂ وصال نے سونے نہیں دیا
جس روز اس کے جھوٹ کی سچائیاں کھلیں
سقراط کی مثال نے سونے نہیں دیا
کس خوبصورتی سے جدا کر دیا ہمیں
دشمن کے اس کمال نے سونے نہیں دیا
جو بھیک مانگتے ہوئے بچے کے پاس تھا
اس کاسۂ سوال نے سونے نہیں دیا
شب بھر میں جاگتی رہی جس رنج کے سبب
دن کو بھی اس ملال نے سونے نہیں دیا
کتنی تھکن سفر کی تھی پر واپسی کی شام
اس شوق عرض حال نے سونے نہیں دیا
روحیؔ میں خواب عشق سے جاگی تو اس کے بعد
کتنے ہی ماہ و سال نے سونے نہیں دیا