نالۂ درد سے یوں حشر اُٹھانا کیا ہے
دوستو! اس طرح کرنا یہ تماشہ کیا ہے
کیوں ہے بے چینی کا یہ زور ، تڑپنا کیا ہے
اے خطاکارو! یہ رو نا ، یہ بلکنا کیا ہے
جب کہ سرکارِ دوعالم ہیں شفیعِ اعظم
عید ہے روزِ جزا ، خوف کیا کھٹکا کیا ہے
شربتِ دید سے بجھ جائے گی تشنہ قلبی
تجھ کو تاریکیِ مرقد کایہ صدمہ کیا ہے
اُس کا رُتبہ ہے بڑا اعلیٰ کوئی کیا سمجھے
عشقِ سرکار کی رفعت کا ٹھکانا کیا ہے
میں مروں ارضِ مدینہ میں بقیع ہو مدفن
شاہِ کونین! مرے دل کا تقاضا کیا ہے
فیض ہے کلکِ رضاؔ کا اے مُشاہدؔ رضوی
نعت لکھنے کا ولے تجھ کو قرینہ کیا ہے