بن جائے گا خادم جو اک بار شہِ دیں کا
دامن نہ وہ چھوڑے گا زنہار شہِ دیں کا
اے چارہ گرو! تم سے دنیا میں کسی صورت
اچھا نہ کبھی ہوگا بیمار شہِ دیں کا
کیوں دل میں کرے خواہش وہ اور کسی شَے کی
ہوجائے جسے حاصل دیدار شہِ دیں کا
کوشش تو کی لوگوں نے جاں توڑ مگر پھر بھی
حل کر نہ سکا کوئی اَسرار شہِ دیں کا
پہلے کی طرح قدسی پھر رشک کریں تجھ پر
اپنالے اگر انساں اَطوار شہِ دیں کا
پامال خزاوں سے ہوگا نہ قیامت تک
شاداب ازل سے ہے گل زار شہ دیں کا
اللہ بھلادوں مَیں ہر شَے کی محبت کو
جائے نہ مگر دل سے اِک پیار شہِ دیں کا
کرتا ہوں مُشاہدؔ مَیں دن رات دعا رب سے
دکھلادے مجھے روضہ اِک بار شہِ دیں کا