لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبیں جو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ترائے ہوئے ہیں
اک جھلک آج دکھا گنبد خضرٰی کے مکیں
کچھ بھی ہیں، دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
سر پہ رکھ دیجے ذرا دست رسلی آقا !
غم کے مارے ہیں ، زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
نام آنے سے ابو بکر و عمر (رض) کا لب پر
تو بگڑتا ہے، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ ترے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
بوسئہ در سے نہ روک اب تو انھیں اے درباں !
خود نہیں آئے، یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں
شرم عصیاں سے نہیں سامنے جایا جاتا
یہ بھی کیا کم ہے، ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں
اللہ اللہ مدینے پہ یہ جلوؤں کی پھوار
بارش نور میں سب لوگ نہائے ہوئے ہیں
قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انھیں دیکھے آئے ہوئے ہیں
کیوں نہ پلڑا ترے اعمال کا بھاری ہو نصیر !
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں