ناتواں دل کو سہارا چاہیے
شہرِ مدینہ کا نظارہ چاہیے
گرداب میں پھنسی ہے زندگی کی نیا
ڈوبتے سفینے کو کنارہ چاہیے
خالی نہ کویء لوٹا دیارِ حبیبؐ سے
اپنے دُ کھوں کا مجھکو مداوا چاہیے
مدینہ کی بستیوں میں کھویا ہے میرا دل
اک گھر مجھے یہاں پہ خدارا چاہیے
جھولیاں ہے بھرتے آقاؐئے مدینہ
چمکے میری بھی قسمت کا ستارہ چاہیے
پیاس نہیں بجھی ہے حسرت اب یہی ہے
آنا مجھے شعیب یہاں دوبارہ چاہیے