مری حیات میں راحت مزید ہو جائے
مجھے بلائیں جو آقا تو عید ہو جائے
نبی کی آل کی سیرت نصاب ہے میرا
بھلے جہان یہ سارا یزید ہو جائے
مری یہ سوچ گھلائے ہی جا رہی ہے مجھے
وہ حاضری ہی نہ ماضی بعید ہو جائے
یہ معجزہ ہے نبی سے عقیدتوں میں ہی
کہ دیدِ بارِ دگر کی نوید ہو جائے
میں ہنس کے جھیل بھی لوں زندگی کے سارے الم
جو حاضری کی مجھے پھر امید ہو جائے
جچیں گی کیسے یہ دنیا کی رونقیں شاہدؔ
در آں نظر جسے آقا کی دید ہو جائے