نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
Poet: توحید By: توحید, Hyderabadنفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
مجرم انسانیت ہر فرد تھا
کچھ ہواؤں میں بھی تھا خوف و ہراس
کچھ فضاؤں کا بھی چہرہ زرد تھا
بے حسی میں دفن تھی انسانیت
آدمیت کا بھی لہجہ سرد تھا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنا بوجھ
کوئی آوارہ کوئی شب گرد تھا
پھول سے چہرے تھے مرجھائے ہوئے
شہر گل بھی آج شہر درد تھا
جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا
سچ تو اخترؔ یہ ہے اس ماحول میں
میرا دشمن ہی مرا ہمدرد تھا
More Akhtar Feroz Poetry
نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
مجرم انسانیت ہر فرد تھا
کچھ ہواؤں میں بھی تھا خوف و ہراس
کچھ فضاؤں کا بھی چہرہ زرد تھا
بے حسی میں دفن تھی انسانیت
آدمیت کا بھی لہجہ سرد تھا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنا بوجھ
کوئی آوارہ کوئی شب گرد تھا
پھول سے چہرے تھے مرجھائے ہوئے
شہر گل بھی آج شہر درد تھا
جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا
سچ تو اخترؔ یہ ہے اس ماحول میں
میرا دشمن ہی مرا ہمدرد تھا
مجرم انسانیت ہر فرد تھا
کچھ ہواؤں میں بھی تھا خوف و ہراس
کچھ فضاؤں کا بھی چہرہ زرد تھا
بے حسی میں دفن تھی انسانیت
آدمیت کا بھی لہجہ سرد تھا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنا بوجھ
کوئی آوارہ کوئی شب گرد تھا
پھول سے چہرے تھے مرجھائے ہوئے
شہر گل بھی آج شہر درد تھا
جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا
سچ تو اخترؔ یہ ہے اس ماحول میں
میرا دشمن ہی مرا ہمدرد تھا
توحید






