نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں
حسرت سے انہیں تکتی ہیں تدبیر کی آنکھیں
زنداں کے غم و درد کا احساس ہے ان کو
اطراف مرے لپٹی ہیں زنجیر کی آنکھیں
مل جاتی انہیں قوت گویائی تو کیا تھا
کچھ کہنے سے معذور ہیں تصویر کی آنکھیں
تدبیر کے میدان میں ناکامی سے تیری
مایوس ہوئی جاتی ہیں تقدیر کی آنکھیں
لوگوں کی نگاہوں سے تو محفوظ ہے لیکن
واقف ہیں ترے ظلم سے شہتیر کی آنکھیں
دیکھا ہی نہیں اس کی بصارت کو کسی نے
کرتی ہیں شکایت مری تحریر کی آنکھیں
آنکھوں میں نظر ڈال کے آنکھیں اسے دیکھو
دن رات غضب ڈھاتی ہیں شمشیر کی آنکھیں