ننانوے کے چکر میں ہر کوئی پھنسا ہے
سود و زیاں کا اب تو احساس بھی مٹا ہے
تخلیق کا ہے مقصد بس اس کی بندگی ہو
بس نفس کے ہی تابع ہر کوئی ہو چکا ہے
کتنا بڑا ہو پاپی اس کو نہ یاس ہی ہو
بخشش کا ہی تو اس نے وعدہ بھی تو کیا ہے
انسان تو ہے خاطی جو ہو گئی بھی لغزش
نادم ہوا جو کوئی اس نے تو بخش دیا ہے
اعمال کے ہی تابع حالات بھی رہیں گے
کرتوت پر نظر ہو اس کی یہی دوا ہے
اس کے ہی جال میں تو سب کی پھنسی ہے گردن
پھندے سے موت کے تو نہ کوئی بچ سکا ہے
اس کے ہی حکم کے تو تابع یہ زندگی ہو
یہ اثر کی ہے کوشش اس کا یہ مدعا ہے