Add Poetry

نوحہ کشمیر

Poet: سبطین ضیا رضوی Sibtain Zia Rizvi By: Sibtain Zia Rizvi, Islamabad

انصاف کرو اے اہل جہاں ہم کب تک خون لٹائیں گے
کب کشتیِ ظلمت ڈوبے گی کب روشنیاں ہم پائیں گے

ہم کٹ بھی چکے ہم لٹ بھی چکےہم قید ہوئے زندانوں میں
کشمیر میں پہ جو کچھ گذری گئی کب دنیا کو بتلائیں گے

یہاں روز جنازے اٹھتے ہیں ہم قبریں روز بناتے ہیں
ہے کون جو ظلم کی راہ روکے ہمیں کتنا اور رلائیں گے

ہم اپنے گھر میں قیدی ہیں جب دھرتی ماں زندان بنے
پھر جو بھی تن پہ بیت گئی، دنیا کو خاک بتائیں گے

یاں پیر جواں سب قید ہوئےپھر مار دیئے روپوش کیئے
جب عزت تک محفوظ نہ ہو ہم جیتے جی مر جائیں گے

کربل کا سماں ہے وادی میں یاں ظلم بھی ہے مجبور بھی ہیں
یاں بھوک بھی ہے افلاس بھی ہےیوں کتنے دن جی پائیں گے

اک آگ لگی ہے وادی میں فردوس سے شعلے اٹھتے ہیں
بارود سے گھر بھی جلتے ہیں کب ظلم وستم رک پائیں گے

وہ رونق سب مدرسوں کی ان جھلسے ہوئے بازروں کی
جی جان پہ بھی ہم کھیل گئے پر اس کو واپس لائیں گے

مری جنت میں بارود کی بو،گل پھول جلے انسان جلے
ہم خون کے دیپ جلا کر بھی روشن دھرتی کر جائیں گے

مدت سے بند دروازےہیں گھر مسجد اور سکولوں کے
اک روز خدا کی قدرت سےہم ان میں واپس جائیں گے

ظلمت کا سینہ چیریں گے بارود کے بادل توڑیں گے
یوں دے کر ہم نظرانہِ جاں دھرتی آزاد کرائیں گے

تب نخلِ گلستان ہو گا بلندکچھ فخر سے اپنی مٹی پر
آزادی کے وہ گیت سبھی مرغان چمن مل گائیں گے

وہ دن بھی ضیا اب دور نہیں جب رات کٹے گی جبر بھری
آزاد وطن کے سب باسی ، اپنا پرچم لہرائیں گے
 

Rate it:
Views: 718
05 Feb, 2022
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets