سگانِ کوچہ کا بختِ خفتہ شہِ مدینہ ذرا جگائیں
کہ جیٖتے جی سبز سبز گنبد ، منار و منبر کو دیکھ آئیں
یہی تمنا بسی ہے دل میں ، جو پہنچیں طیبہ کی سرزمیں پر
تو شوق ہم کو گرادے ایسا ، کہ اس جہاں سے گذر ہی جائیں
سما چکے ہیں نظر میں جب کہ ، زمینِ طیبہ کے خار زاہد
تو باغِ جنت کے غنچہ و گل ، نگاہوں میں پھر کہاں سمائیں
کہا یہ کرتے ہیں یا حبیبی ، کہ شامِ تُربت مہیب ہوگی
اے نورِ ربِّ عظیم آکر مری لحد کو بھی جگمگائیں
دلوں میں ارماں مچل رہے ہیں ، کہ دیکھیے کب شہِ مدینہ
مُشاہدِؔ خستہ ، بے نوا کو بھی روضۂ پاک پر بلائیں