نَوِیدِ وَصْل جو زندانیوں کو مِل جائے
قرارِ جاں مری قُرْبانِیوں کو مِل جائے
لَہْو زمیں پہ برستا دکھائی دے گا تمھیں
جو اِذْنِ نَوحَہ گَری پانیوں کو مِل جائے
جنونِ قُلْزُم صَحْرا کو سرخ کردے گا
غمِ حسین جو طغیانیوں کو مِل جائے
کبھی تو نالَہِ شبگیر بھی ہو نغمہِ دل
تپِ فِراق بھی آسانیوں کو مِل جائے
گلہ نہ ہوگا محبت میں نارَسائی کا
نِگاہِ عِشْق جو سیلانیوں کو مِل جائے