نہ آفتاب لاؤ نہ ماہتاب لاؤ
قلبِ سلیم لے کر بس فاتحانہ آؤ
دل ہو زباں سے آہنگ کچھ بھی تضاد نہ ہو
دل میں جو ہو وہ لب پر دل آئینہ بناؤ
کب تک رہے گی ظلمت کب تک رہے جَہالَت
بس شمعِ علم کی ہی ہر سو جلاتے جاؤ
یہ دل کسی کے غم سے معمور نہ ہو جب تک
کب ناگَہانی آفت میں مبتلا ہو جاؤ
تم کو جو مل بھی جائے سارے جہاں کی دولت
ایثار کا ہو جذبہ بس خرچ کرتے جاؤ
الفت کا ہی جہاں میں چشمہ رواں دواں ہو
دل سے ملاؤ دل کو دل کی خلش مٹاؤ
مانو اثر کی گر تم غفلت سے باز آؤ
ہر شاخ پہ ہے الّو فکرِ چمن بڑھاؤ