نہ تو مال و زر کی ہَوَس مجھے نہ کُلاہ کا تو خیال ہے
کہ مجھے تو علم کا ہے شَغَف وہ ہی میرا حُسْن و جَمال ہے
نہ تو ظلمتوں میں رہے کوئی نہ جہالتوں کو فروغ ہو
کہ دلوں میں دیپ تو علم کے ہی جلائیں بس یہ کمال ہے
نہ ملےکبھی کوئی تشنہ لب تو پھرایسی ساقی گری ہی ہو
جو نہ امتیاز کرے کبھی تو وہ اصل میں خوش خِصال ہے
مرے لب پہ ہو سدا ذِکْرِ ہُو یہی میرا شُغْل ہو رات دن
تری یاد کے تو بغیر ہی مرا جینا بھی تو مُحال ہے
ترے دم سے ہے مری زندگی کہ مجھے تو کوئی بھی غم نہیں
جو بھنور میں کشتی پھنسے کبھی ترا بس کرم ہی تو ڈھال ہے
یہی آرزو تو اثر کی ہے کہ اسی پہ اس کو قرار ہے
کہ ہر کوئی مَشْعَلِ راہ ہو کہ یہ قوم رُو بَہ زَوال ہے