نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
Poet: Hassan Rizvi By: aftab, khi
نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں
وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے
منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے
کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے
یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ہیں
بھلا کچے گھڑے پر کون دریا پار کرتا ہے
ہمیں یہ دکھ کہ وہ اکثر کئی موسم نہیں ملتا
مگر ملنے کا وعدہ ہم سے وہ ہر بار کرتا ہے
حسنؔ راتوں کو جب سب لوگ میٹھی نیند سوتے ہیں
تو اک خواب آشنا چہرہ ہمیں بیدار کرتا ہے
More Hassan Rizvi Poetry
میں نے اس کو برف دنوں میں دیکھا تھا میں نے اس کو برف دنوں میں دیکھا تھا
اس کا چہرہ سورج جیسا لگتا تھا
یوں بھی نظریں آپس میں مل لیتی تھیں
وہ بھی پہروں چاند کو تکتا رہتا تھا
وہ گلیاں وہ رستے کتنے اچھے تھے
جب وہ ننگے پاؤں گھوما کرتا تھا
چاروں جانب اس کی خوشبو بکھری تھی
ہجر کا اک موسم بھی اس کے جیسا تھا
دور کہیں آواز کے گھنگھرو بجتے تھے
اور میں کان لگائے سنتا رہتا تھا
سبز رتوں میں اکثر مجھ کو یاد آیا
اس نے خط میں سوکھا پتا بھیجا تھا
اس کا چہرہ سورج جیسا لگتا تھا
یوں بھی نظریں آپس میں مل لیتی تھیں
وہ بھی پہروں چاند کو تکتا رہتا تھا
وہ گلیاں وہ رستے کتنے اچھے تھے
جب وہ ننگے پاؤں گھوما کرتا تھا
چاروں جانب اس کی خوشبو بکھری تھی
ہجر کا اک موسم بھی اس کے جیسا تھا
دور کہیں آواز کے گھنگھرو بجتے تھے
اور میں کان لگائے سنتا رہتا تھا
سبز رتوں میں اکثر مجھ کو یاد آیا
اس نے خط میں سوکھا پتا بھیجا تھا
hussain
نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں
وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے
منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے
کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے
یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ہیں
بھلا کچے گھڑے پر کون دریا پار کرتا ہے
ہمیں یہ دکھ کہ وہ اکثر کئی موسم نہیں ملتا
مگر ملنے کا وعدہ ہم سے وہ ہر بار کرتا ہے
حسنؔ راتوں کو جب سب لوگ میٹھی نیند سوتے ہیں
تو اک خواب آشنا چہرہ ہمیں بیدار کرتا ہے
ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں
وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے
منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے
کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے
یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ہیں
بھلا کچے گھڑے پر کون دریا پار کرتا ہے
ہمیں یہ دکھ کہ وہ اکثر کئی موسم نہیں ملتا
مگر ملنے کا وعدہ ہم سے وہ ہر بار کرتا ہے
حسنؔ راتوں کو جب سب لوگ میٹھی نیند سوتے ہیں
تو اک خواب آشنا چہرہ ہمیں بیدار کرتا ہے
aftab






