نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے
صف زاہداں ہے تو بے یقیں صف مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا نہ ستم نیا کہ تری جفا کا گلا کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
کف باغباں پہ بہار گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن میں نمود میرے لہو کی ہے
نہیں خوف روز سیہ ہمیں کہ ہے فیضؔ ظرف نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن جو لگن اس آئینہ رو کی ہے