نہ کلاہ کی ہے چاہت نہ تو تاج ہی عطا ہو
ملے در کی خاک تیری یہی اپنا مدعا ہو
کوئی بات ہو بھی جائے کبھی تم کو وہ نہ بھائے
کبھی پھر سے جو ملیں تو نہ کسی کا کچھ گلہ ہو
یہ رہی ہے اپنی حسرت کہ سدا وفا کریں گے
نہ تو بے وفائی سیکھی نہ تو اس سے واسطہ ہو
یہ جو راہ ہے وفا کی یہ تو ہے بہت کٹھن بھی
کبھی چوٹ لگ بھی جائے تو نہ لب سے کچھ ادا ہو
ذرا دیکھو یہ پرندے جو بلندیوں پہ اڑتے
ہے اسی کی شان قدرت تو اسی کی بس ثنا ہو
یہ اثر نے بات سیکھی جو ہے ہی بڑے پتے کی
جو بھلا کرے بھلا ہو جو برا کرے برا ہو