نہ ہوتا در محمدؐ کا تو دیوانے کہاں جاتے
خدا سے اپنے دل کی بات منوانے کہاں جاتے
جنہیں عشقِ محمدؐ نے کیا ادراک سے بالا
حقیقت اِن تمنّاؤں کی سمجھانے کہاں جاتے
خدا کا شُکر ہے یہ، حجرِ اسود تک رسائی ہے
جنہیں کعبے سے نِسبت ہے وہ بُتخانے کہاں جاتے
اگر آتی نہ خوشبوئے مدینہ آنکھوں سے
جو مرتے ہیں نہ جلتے ہیں وہ پروانے کہاں جاتے
سِمٹ آئے میری آنکھوں میں حُسنِ زندگی بن کر
شرابِ درد سے مخمور نذرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا ہے نعتِ ساغرؔ کام آئی
غلامانِ نبیؐ محشر میں پہچانے کہاں جاتے