نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا
سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں
پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا
ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے
دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا
نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا
اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے
برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا