نہ یاس کی تو گھٹا ہی چھاتی جودوستی ہی نبھائی ہوتی
وہ ہی ہے وارَفتگی کا عالم یہ آگ دل کی بجھائی ہوتی
کبھی حضوری کبھی ہو دوری ہر پل یہ گزرے ہی کشمکش میں
یہ نہ پوچھو کہ کیاہو عالم کبھی حضوری ہی پائی ہوتی
کبھی ہوئی کوئی بات ایسی کبھی تو وہ ناگوار گزری
اسے تو دم بھر میں بھول جانا کبھی نہ کچھ لب کشائی ہوتی
جو ہم میں تم میں قرار ہے تو اسے بنانا ہے اور پختہ
یہی جو عہدِ وفا ہو پکا تو کیوں کبھی بے وفائی ہوتی
جو آس تجھ سے لگائی ہوتی تومدعا اپنا مل ہی جاتا
قدم تو راہِ وفا میں ہوتے خرد سے نا آشنائی ہوتی
یہ دل تو اپنا رہے مصفّا نہ غیر کا ہو کبھی تصور
یہ اثر کا بھید کھل ہی جاتا جو غیر سے آشنائی ہوتی