نہ یوں گھر میں گھُس کے رہا کرو، کوئی شام اِدھربھی عطا کرو
میں غزل کی ہی تو کتاب ہوں مجھے آکے روز پڑھا کرو
جو یہ فاصلے سے ملو گے تم تو یہ دوستی پہ ہی حرف ہے
میں نئے مزاج کا ہوں ذرا ، مجھے یوں نہ دور رکھا کرو
یہ جو اشتہار تھا لان کا، اسے تم نے پھاڑ دیا ہے کیوں
مرے کام کا تو نہیں تھا وہ؟ مجھے دیکھنے تو دیا کرو
کسی حسنِ پردہ نشیں کو میں جو یہ دیکھتا ہوں ذرا ذرا
یہ ہے بھولپن مری آنکھ کا، کہیں تُم خفا نہ ہوا کرو
یہ خزاں کی ذرد سی شال میں چلی آرہی ہے کوئی کُڑی
نہیں اُس کو میں نہیں دیکھتا، مجھے ایسے تُم نہ تکا کرو