نہیں مقصود آرائش زمانے کی ہے کب تیری عطا کم اس خزانے کی کروں تجھ سے طلب اب میں کیا بس اور نہیں ہمت ہے مجھ میں آزمانے کی ہے دیتا مانگے بن بھی تومجھے سب کچھ ضرورت ہی کیا اب جھولی اُٹھانے کی