نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغییر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے
چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمہارے آنے کے
کب تو سوتا تھا گھر مرے آ کر
جاگے تالا غریب خانے کے
مژہ ابرو نگہ سے اس کی میرؔ
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے
تیر و تلوار و سیل یکجا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے