نہیں کہ نامہ بروں کو تلاش کرتے ہیں
ہم اپنے بے خبروں کو تلاش کرتے ہیں
محبتوں کا بھی موسم ہے جب گزر جائے
سب اپنے اپنے گھروں کو تلاش کرتے ہیں
سنا ہے کل جنہیں دستار افتخار ملی
وہ آج اپنے سروں کو تلاش کرتے ہیں
یہ عشق کیا ہے کہ اظہار آرزو کے لیے
حریف نوحہ گروں کو تلاش کرتے ہیں
یہ ہم جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں قتل گاہوں کو
دراصل چارہ گروں کو تلاش کرتے ہیں
رہا ہوئے پہ عجب حال ہے اسیروں کا
کہ اب وہ اپنے پروں کو تلاش کرتے ہیں
فرازؔ داد کے قابل ہے جستجو ان کی
جو ہم سے دربدروں کو تلاش کرتے ہیں