اے امیر شہرذرا نیچے اتر
کچھ دیکھ ذرا کچھ سوچ ذرا
ہے تیرے پاس ہی مال کیوں
ہیں لوگ یہاں کنگال کیوں
تیرے تاشتے باہر سے آتے ہیں
ہمیں ملتی نہیں ہے دال کیوں
اے امر شہرذرا نیچے اتر
یہ خود کش کہاں سے آتے ہیں
یہ آتے ہیں یا ہم خود بناتے ہیں
کہیں یہ تو وہی لوگ نہیں
جن کا حق ہم کھا جاتے ہیں
اے امیر شہر ذرا نیچے اتر
اپنا آسماں ہے جس سے اٹا ہوا
یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے
کیوں ہو رہی ہے تنگ زمیں اپتی
ہر شخص کیوں آگ اگلتا ہے
اے امر شہرذرا نیچے اتر
یہ نیا سال جو آئے گا
کیا یہ کوئی نئی نوید بھی لائے گا
ہمیں ملے گی سکھ کی سانس کوئی
یا پھر یہ پچھلے ظلم دھرائے گا
اے امیر شہر ذرا نیچے اتر
کچھ دیکھ ذرا کچھ سوچ ذرا
اے امیر شہر اے امیر شہر