شعیب کی یاد میں
بہن بھائیوں کی جان، شریک حیات کا سہارا تھا
اولاد پہ سایہ افگن والدین کے نینوں کا تارا تھا
دیس پردیس میں سب سے شناسائی اُس کی
وہ سب کا غمخوار وہ سب کو پیارا تھا
درد سہہ کر بھی رکھتا ہلکی سی مسکان لبوں پر
بانٹتے ہیں جو خوشیاں اُن میں اُس کا شمارا تھا
حَسب دُستور، در جوانی، وطن سے دُوری
رزق حلال کی خاطر پردیس سے اُس کا یارا تھا
اُداس ہو گئ راہیں،سونی ہو گئ گلیاں اُس بن
یُوں لگتا وہی بستی کا شہزادہ وہی گلیوں کا بنجارا تھا
الٰہی سَدا رکھنا رحمتوں کا نُزول اُس کی تُربت پر
جو آغوش مادر میں جیون بازی ہارا تھا
کیوں بخشی مجھے جدائی کیوں سونپی یہ ظالم تنہائی
ہم سَدا اک دُوجے کے رہیں گے یاد کرو یہ عہد تمارا تھا
اُف توبہ کیا سینہ شکن تھا بین اُس کا جو کہتی تھی
کیوں چھوڑ گئے تم ،تم بن کون میرا سہارا تھا
اے دوست شعیب اے ہمراز شعیب اے پاگل زیّب
مرہم کہاں تھے،تیرے لفظوں نے تو اک اور تیر مارا تھا