(حضرتِ نیوٹن کے قوانین سے ستائے ہوئے طالبِ علم کے نام)
پڑھ رہا تھے ہم کوئی قانون نیوٹن کا سوال
اپنے اس ناقص ذہن میں کوند آیا یہ خیال
سیب نہ گرتا اگر تو کچھ نہیں ہوتا وبال
ہم بھی کرلیتے فزیکس میں گریجویشن پچھلے سال
جتنی قوت صرف کی اتنی ہی ہوتی دستیاب
سیب گرتے ہی اٹھاکر کھا جو لیتے بھائی صاب
پھر بھی حضرت نے کھنگالا ‘حرکتوں‘ کو جابجا
قوتِ ذرات سے لیکر زمین و کہکشاں
اب تو پھرے ہی کی قوت سے بچے گی اپنی جاں
جتنے بھی قانون ہیں ان کی بناکر پرچیاں
ہم نے رقعہ صنم کے چار ٹکڑے کر لئے
پھر فٹافٹ پشتِ رقعہ پر وہ سارے بھر لئے
ہائے رے قسمت ہماری عین وقتِ امتحاں
تیسرا قانونِ حرکت یوں ہوا ہم پر عیاں
جتنی قوت بھر کے لائے تھے بصورت پرچیاں
اتنی قوت سے ہی جیبوں کی تلاشی تھی وہاں
جیب خالی جا کے بیٹھے اور اٹھ آئے تھے ہم
کتنے غم نیوٹن تمھارے واسطے کھائے تھے ہم