نیکی کا انعام
Poet: Shabbir Rana By: Dr.Ghulam Shabbir Rana, Jhang City(Punjab-Pakistan)
دو گلشن ہیں اس کا مقدر جو ڈر کے کرے گزران
عجز و نیاز کے عالم میں جو رب کی کرے پہچان
فبای الا ربکما تکذبان
جنت کے دو گلشن جن میں دو چشموں کی ہے بہار
سر سبز و شاداب پھلوں سے لدے ہیں سب اشجار
ان باغوں میں بھی دیکھو گے پھلوں کی دو اقسام
جنت کے باغوں میں جنتی پھریں گے مست خرام
مسند گل پر زربفت اوربنات کی بچھی ہوئی چادر ہو گی
ایسے حسیں منظر میں مسرت ہر چہرے پر ظاہر ہو گی
سجدہ شکر میں پھلوں سے لدی ہر شاخ نظر آئے گی
جنت کی مخلوق یاں خوشی سے پھولے نہ سمائے گی
عفت،شرم و حیا اور نیکی حوروں کی پہچان
جنھیں دیکھ سکا نہ کوئی جن اور نہ ہی انسان
سچے دل،پاکیزہ جذبے اور صحیح اذہان
ہیرے اور موتی سے مماثل زرق برق گفتار
حسن سراپاان حوروں کا اور عظیم کردار
اپنے خالق سے پاؤ گے نیکی کا یہ احسان
فبای الا ربکما تکذبان
اس کے علاوہ اور بھی دو باغ ہوں گے وہاں موجود
ان با غوں میں واجب ہے تم کو تسبیح اور سجود
یہ گلشن انواع و اقسام کے پودوں پھولوں سے لبریز
عقیدت کے جذبات تو ان کے ہوں گے پھر مہمیز
دو چشمے ان دو باغوں کا حسن بڑھائیں گے
جنت کے باسی تو یہاں پر خوب سکوں پائیں گے
جنت کے یہ باغ ہوں گے اتنے سرسبز و شاداب
ان کی کہیں نظیر نہیں ہے یہ سب ہیں نایاب
فواروں کی صورت چشمے یہاں پاؤ گے
ان میں بھی ہوں گے کثرت سے اثمار اور اشجار
اور اشجار میں عام ملیں گے انار اور کھجور
جن سے ملے گی دل کو تسلی ہو گی کلفت دور
صحن چمن میں ایستادہ ہوں گے حوروں کے خیام
شرم و حیا کی پیکر حوریں کریں گی یہاں قیام
دنیا میں جو پیتے رہے صبر و رضا کے جام
جنھوں نے نفس کے شر کا کر دیا قصہ سارا تمام
حشر کے دن ان کو ملیں گے یہ سارے انعام
حسن حقیقی سو رنگوں میں جلوہ گر ہوتا ہے
انساں کے اذہان و قلوب میں اس کا گھر ہوتا ہے
وہ خالق ہے ارض و سما کا اس کا بڑا مقام
بے نیاز ہے اس کی ہستی عا جز سب انسان
فبای الا ربکما تکذبان
جب لفظ ساتھ چھوڑ جائیں
جب آنکھ فقط نمی بولے
جب لب خالی رہ جائیں
کیا صرف سجدہ کافی ہے؟
کیا تُو سنے گا وہ آواز
جو کبھی ہونٹوں تک نہ آئی؟
جو دل میں گونجتی رہی
خاموشی میں، بے صدا؟
میرے سجدے میں شور نہیں ہے
صرف ایک لرزتا سکوت ہے
میری دعا عربی نہیں
صرف آنسوؤں کا ترجمہ ہے
میری تسبیح میں گنتی نہیں
صرف تڑپ ہے، فقط طلب
اے وہ جو دلوں کے رازوں کا راز ہے
میں مانگتا نہیں
فقط جھکتا ہوں
جو چاہا، چھن گیا
جو مانگا، بکھر گیا
پر تُو وہ ہے
جو بکھرے کو سنوار دے
اور چھن جانے کو لوٹا دے
تو سن لے
میری خاموشی کو
میری نگاہوں کی زبان کو
میرے خالی ہاتھوں کو
اپنی رحمت کا لمس عطا کر
کہ میں فقط دعاؤں کا طالب ہوں
اور وہ بھی بس تیرے در سے
سخاوت عثمان اور علی کی شجاعت مانگ رہے ہیں
بے چین لوگ سکون دل کی خاطر
قرآن جیسی دولت مانگ رہے ہیں
بجھے دل ہیں اشک بار آ نکھیں
درِ مصطفیٰ سے شفاعت مانگ رہے ہیں
سرتاپا لتھڑے ہیں گناہوں میں
وہی عاصی رب سے رحمت مانگ رہے ہیں
رخصت ہوئی دل سے دنیا کی رنگینیاں
اب سجدوں میں صرف عاقبت مانگ رہے ہیں
بھٹکے ہوئے قافلے عمر بھر
تیری بارگاہ سے ہدایت مانگ رہے ہیں
بروز محشر فرمائیں گے آقا یارب
یہ گنہگار تجھ سے مغفرت مانگ رہے ہیں
آنکھوں میں اشک ہیں ، لبوں پر دعا ہے
جنت میں داخلے کی اجازت مانگ رہے ہیں
ہر دور کے مومن اس جہاں میں سائر
اصحاب محمدجیسی قسمت مانگ رہے ہیں
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی
تو بے نیاز ہے تیرا جہاں یہ سارا ہے
ترے حضور جھکی جب جھکی ہے پیشانی
ترا کٰا ہی سجدوں میں جلوہ فرما ہے
تو آب و خاک میں آتش میں باد میں ہر سو
تو عرش و فرش کے مابین خود ہے تنہا ہے
تری صفات تری ذات کیا بیاں کیجئے
تو اے جہاں کے مالک جہاں میں یکتا ہے
تجھی سے نظم دو عالم ہے یہ کرم تیرا
تو کائینا کا خالق ہے رب ہے مولا ہے
تو ہر مقام پہ موجود ہر جگہ حاضر
تو لامکاں بھی ہے ہر اک مقام تیرا ہے
مرا بیان ہے کوتاہ تیری شان عظیم
ثناہ و حمد سے وشمہ زبان گویا ہے
Jab Khamosh Tha Rab Magar Ab Inteha Ho Gayi Thi
Waqt Ke Saath Yeh Zulm Barhne Laga Tha
Har Ek Bacha Khuda Ke Aage Ro Raha Tha
Tum Itne Jaahil The Ke Bachon Ki Aah Na Sun Sake
Yeh Khwahishen Yeh Baatein Yeh Minatein Na Sun Sake
Yun Roti Tarapti Jaanon Pe Tars Na Kha Sake Tum
Woh Maaon Ke Sapne Tod Ke Hanste Rahe Tum
Woh Masoomon Ki Duaein Rad Nahin Gayin
Woh Pyaaron Ki Aahen Farsh Se Arsh Pohanch Gayin
Phir Ek Jhalak Mein Teri Bastiyan Bikhar Gayin
Aag Yun Phaili Ke Shehar Tabah Aur Imaratein Jal Gayin
Phir Tumhare Barf Ke Shehar Aag Mein Lipat Gaye
Barf Se Aag Tak Safar Mein Tum Khaak Mein Mil Gaye
Tum Samajhte The Tum Badshah Ban Gaye
Tumhare Ghuroor Phir Aag Se Khaak Ban Gaye
Tum Unko Beghar Karte The Na Karte Reh Gaye
Aag Aisi Jhalki Ke Tum Be-Watan Ho Kar Reh Gaye
Aye Zaalim! Tum Chale The Bare Khuda Banne
Aur Tum Tamaam Jahano Ke Liye Ibrat Ban Ke Reh Gaye
روا ں ذ کرِ ا لہ سے بھی زبا ں کو رب روا ں رکھتا
جہا ں میں جو عیا ں پنہا ں روا ں سب کو ا لہ کرتا
مسلما نوں کے د ل کے بھی ا یما ں کو رب روا ں رکھتا
پکا را مشکلو ں میں جب بھی رب کو کسی د م بھی
ا ما ں مشکل سے د ی ، پھر ا س ا ما ں کو رب روا ں رکھتا
میرا رب پہلے بھی ، باقی بھی ، رب ظاہر بھی ، با طن بھی
جہا ں میں ذ کرِ پنہا ں عیا ں کو رب روا ں رکھتا
مُعِز بھی رب، مُذِ ل بھی رب ، حَکَم بھی رب ، صَمَد بھی رب
ثناءِ رب جہا ں ہو ، اُ س مکا ں کو رب روا ں رکھتا
بقا کچھ نہیں جہا ں میں خا کؔ ، سد ا رہے گا خدا اپنا
پوجا رب کی کریں ، جو ہر سما ں کو رب روا ں رکھتا






