وارستہ اس سے ہیں کہ‘ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ‘ عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار‘ نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلا
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے‘ کہتے ہیں‘ ہر درد کی دوا
یوں ہو‘ تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھنیچتا ہوں‘ خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی‘ بجائے خود‘ اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں‘ خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونیِ ہمت ہے‘ انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر‘ نہ غیر سے‘ وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں‘ اسد!
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو